URDU, Anjuman Taraqqi-e-Urdu - Karachi

اردو

Anjuman Taraqqi-e-Urdu Pakistan
ISSN (print): 2519-6332
ISSN (online): 2708-1915

منیر احمد شیخ کے چند غیرمطبوعہ خطوط

  • Dr. Arshad Mahmood Nashad/
  • December 21, 2019
A Few Unpublished Letters of Munir Ahmad Sheikh
Keywords
Personality, Disposition, Like & Unlike, Letters.
Abstract

An epistle is a cardinal source of research. Not only it reveals the personality, disposition, likes and dislikes, customs, habits and attitudes of the addresser and addressee but also throws light on their times and backdrop. This is the reason that the letters of literati are considered a research heritage and the students, scholars and researcher are benefitted from them in their scholarly pursuits. Keeping this aspect in view, in this article, a few unpublished letters of short story writer Munir Ahmad Sheikh are being presented. These letters were addressed to famous researcher, palaeographer and poet Nazar Sabri. Many literary and scholarly topics are discussed in these letters and we come to know about the personal and literary relationship of two distinguished writers. The writer has included brief biographical sketches of the two personalities and added footnotes for a better understanding of the letters.

References

حواشی وتعلیقات

۱۔     نذر صابری صاحب کسی خاندانی نسبت کے باعث ’’ چودھری‘‘نہیں تھے۔ اُن کے مرشدِ گرامی حضرت مولانا نواب الدین رمداسی ؒ انھیں پیار سے ’’چودھری‘‘ کہتے تھے۔ شیخ کا عطا کردہ یہ نام زندگی بھرکے لیے اُن کی شناخت بن گیا۔

۲۔    شاعر، افسانہ نویس، مترجم اور موسیقی کے معروف ناقد عنایت الٰہی ملک کا شمار گورنمنٹ کالج، کیمبل پور[حال: اٹک]کے معروف طلبہ میں ہوتا ہے۔ اُن کے والدِ گرامی پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی ملک اسی کالج میں استاد رہے۔ عنایت الٰہی ملک کا بچپن اپنے والد کے ساتھ نیروبی میں گزرا۔ عنایت الٰہی ملک نے ۱۹۵۵ء میں گورنمنٹ کالج،اٹک سے گریجوایشن اور ۱۹۵۷ء میںلا کالج، لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ جامعۂ پنجاب سے ایم پی اے اور کیلی فورنیا سے ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی۔ ملازمت کے بعد آر سی ڈی میں ملازمت اختیار کی۔ مجلّہ ’’کرن‘‘ کے مدیر رہے۔وفاقی محتسب سیکریٹریٹ میں ڈائریکٹر جنرل کے منصب سے سبک دوش ہوئے۔ طالب علمی کے زمانے میں شیدا تخلص کرتے تھے۔ عنایت الٰہی ملک کا شمار موسیقی کے معروف ناقدین میں ہوتا ہے۔اُن کی تصانیف میں ’’راگ رنگ‘‘، ’’سُر سنگیت‘‘ [بہ اشتراک]، ’’برصغیر کی موسیقی: جنگِ آزادی سے پہلے اور بعد‘‘، ’’پت جھڑ کی سلطنت‘‘، ’’ہیمنگ وے: فن، شخصیت اور افسانے‘‘، ’’پاکستان میں انتظامیہ کا زوال‘‘، Exective Development in Pakistan, An Ombudsman for Pakistan, Singer not the song, Private life of Ragasشائع ہو کر خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں جب کہ ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘(افسانے)، ’’منزل منزل دل بھٹکے گا‘‘(سفرنامہ) اور ’’سفرنامۂ لبنان، ترکی، امریکا اور چین‘‘ زیرِ اشاعت ہیں۔

۳۔    معروف اقبال شناس اور ماہرِ تعلیم۔ پروفیسر محمد عثمان ۱۹۲۲ء کوانبیر سنگھ پورہ( جموں) میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ سے ایم اے اُردو کرنے کے بعد اسلامیہ کالج، لاہور، گورنمنٹ کالج،کیمبل پور[حال: اٹک]؛ گورنمنٹ کالج، لاہوراور دوسرے کالجوں میں اُردو کے استاد رہے۔ڈگری کالج باغبان پورہ، لاہور اور سنٹرل ٹریننگ کالج کے پرنسپل بھی رہے۔۲۰؍جون ۱۹۸۷ء کو لاہور میں وفات پائی۔ ان کی تصانیف میں ’’حیاتِ اقبال کا جذباتی دور‘‘، ’’اقبال کا فلسفۂ خودی‘‘، ’’اسلام پاکستان میں، اسلامی سوشل ازم: نئے تعلیمی تقاضے‘‘، ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘(ترجمہ)اور ’’ثقافت کے مسائل‘‘ شامل ہیں۔

۴۔    وحید سے مرادشاعر اور سیاست دان احمد وحید اختر ہیں۔ احمد وحید اختر ۳؍ جنوری ۱۹۴۰ء کو اٹک میںشیخ فضل کریم اختر کے ہاں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج اٹک سے گرایجویشن کے بعد ۱۹۶۵ء میں جامعۂ پشاور سے سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ احمد وحید اختر پیپلز پارٹی کے اساسی اراکین میں شامل ہیں۔ان کا شمار ذوالفقار علی بھٹو کے بااعتماد اور قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ ۱۹۷۳ء میں سینیٹر اور ۱۹۷۷ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔۳؍ جون ۱۹۸۸ء میں کینسر کے مرض میں وفات پائی۔ احمد وحید اختراعلا ادبی ذوق کے مالک تھے۔ ان کی شاعری جو مختلف رسائل میں شائع ہوئی، فکر وفن کے اعتبار سے پختگی کی عکاس ہے۔افسوس کہ اُن کا کلام کتابی صورت میں جمع نہ ہو سکا۔

۵۔    جاوید سے مراد جاوید گلزار ہیں جو بریگیڈئیر گلزار احمد کے صاحب زادے تھے۔ کالج کے زمانے میں وہ اچھے اتھلیٹ شمار ہوتے تھے۔ وہ کالج ہاسٹل میں اقامت پذیر رہے۔

۶۔    نفسیات کے معروف استاد ڈاکٹراختر قریشی مراد ہیں۔ اختر قریشی کا تعلق پوڑمیانہ تحصیل حسن ابدال ضلع اٹک سے ہے۔ آپ یکم جون ۱۹۴۲ء کو پوڑمیانہ میں عبدالشریف قریشی کے گھر پیدا ہوئے۔گورنمنٹ کالج، اٹک سے گریجوایشن کے بعد لاہور سے نفسیات میں ماسٹر دگری حاصل کی۔ فلوریڈا سےPersonality Profile Of a Cardiac Patientکے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔تعلیم کی تکمیل کے بعد نفسیات کی تدریس سے وابستہ ہوئے۔اٹک، حیدر آباد کے کالجوں میں کچھ عرصہ پڑھانے کے بعد گورنمنٹ کالج، لاہور سے وابستہ ہوئے۔ ترقی کر کے صدرِ شعبہ کے منصب تک پہنچے اور ۱۹۹۸ء میں قبل از وقت سبک دوشی اختیار کی۔اختر قریشی تدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف اور ترجمہ کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ انھوں نے کئی کتب اور مقالات تحریر کیے۔ آپ کی مطبوعہ تصانیف وتراجم میں ’’شخصیت کے نظریات‘‘، ’’مؤکل مرکزی طریقِ علاج‘‘ از کارل روجرز(ترجمہ)، ’’لنارڈو ڈی ونچی‘‘ از سگمنڈ فرائیڈ (ترجمہ)،ABC of Psychology، ’’انگریزی اُردو ڈکشنری‘‘ اور ٹیکسٹ بُک براے انٹرمیڈیٹ(پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ) شامل ہیں۔

۷۔    گورنمنٹ کالج، اٹک میں ریاضی کے ہر دل عزیز استاد اورپرنسپل۔ محمدافضل۱۳؍ اپریل ۱۹۳۰ء کو کپور تھلہ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والدِ گرامی کا نام میاں قادر بخش تھا۔ رندھیر ہائی اسکول اور رندھیر کالج، کپور تھلہ سے میٹرک اور ایف اے تک تعلیم پائی۔بعدازاںگورنمنٹ کالج سے بی اے اور ایم اے ریاضی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اعلا تعلیمی نتائج پر رول آف آنر کے حق دار ٹھہرے۔ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے ۲۶؍ ستمبر ۱۹۵۵ء میں ملازمت آغاز کی۔ابتدا میں دو تین سال زمین دار کالج، گجرات اور گورنمنٹ کالج میاں والی میں ریاضیات کے استاد رہے۔ ۱۹۵۶ء میں گورنمنٹ کالج کیمبل پور[موجودہ: اٹک] میں تبادلہ ہوا اور پھر سبک دوشی تک یہیں خدمات انجام دیتے رہے۔۱۹۵۶ء سے ۱۹۸۶ء تک ہاسٹل کے وارڈن کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیے۔۱۲؍ اپریل ۱۹۹۰ء میں بہ حیثیت پرنسپل ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔ چند سال پہلے لاہور میں انتقال ہوا۔

۸۔    عارف رضا مراد ہیں۔ یہ منیر احمد شیخ کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔عارف رضا ۱۳؍ستمبر ۱۹۳۵ء میں پیدا ہوئے۔گورنمنٹ کالج، اٹک میں نفسیات کے اُستاد رہے۔ بعدازاںگورنمنٹ کالج، فیصل آباد میں شعبۂ نفسیات کے صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے، اسی کالج سے سبک دوش ہوئے۔مجلسِ اقبال، فیصل آباد اور پاکستان پروفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔ ’’عطا کی خوشبو‘‘ اور ’’ثنا کی خوشبو‘‘ کے عنوانات سے ان کے دو نعتیہ مجموعے منظرِ اشاعت پر جلوہ گر ہوئے۔ان کا انتقال ۱۵؍اگست ۲۰۱۸ء میں فیصل آباد میں ہوا۔

۹۔    ’’غایۃ الامکان فی معرفتہ الزمان والمکان‘‘ مرتبہ نذر صابری۔ زمان ومکان کے موضوع پر یہ مختصر سا فارسی رسالہ اہلِ علم کے نزدیک نہایت وقعت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال نے اسے عراقی کی تصنیف کہا، بعض علما نے بہ دلائل عین القضاۃ ہمدانی کی تصنیف لکھا ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ پروفیسر لطیف اللہ نے کراچی سے شائع کیا۔نذر صابری کی تحقیق کے مطابق یہ رسالہ شیخ تاج الدین محمود اشنوی کی تصنیفِ لطیف ہے۔نذر صابری نے پہلی بار شیخ تاج الدین محمود اشنوی کے نام کے ساتھ اس رسالے کو مجلسِ نوادراتِ علمیہ، کیمبل پور سے ۱۲؍ ربیع الاوّل ۱۴۰۱ھ کو شائع کیا۔

۱۰۔   اُردو تحقیق کا ایک اہم ستون۔ مولانا امتیاز علی خاں عرشی۲۵؍ فروری ۱۹۸۱ء کو رام پور میں واصل بہ حق ہوئے۔

۱۱۔   نذر صابری، خدا بخش لائبریری، بانکی پور پٹنہ میں موجود ’’غایۃ الامکان فی معرفۃ الزمان والمکان‘‘ کے قلمی نسخے کے طالب تھے۔کوششِ پیہم کے باعث وہ بعد میں اس نسخے کی مائیکرو فلم حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے۔

۱۲۔   صابری صاحب کا نامِ نامی غلام محمد ہے۔منیر احمد شیخ نے سہواً غلام احمد لکھا۔

۱۳۔  مجموعے کا درست نام ’’پارۂ از رسائل شاہ نعمت اللہ ولی‘‘ ہے اور اس کے مرتب حاجی مرزا عبدالحسین ہیں۔یہ مجموعہ ۱۳۱۱ھ میں مطبعِ ارمغان، تہران سے شائع ہوا۔

۱۴۔  اٹک کے شاعر اور معروف وکیل۔ ظہیر احمد خان ظہیر کا تعلق ڈھوک شرفا ضلع اٹک کے معزز کھٹڑ گھرانے سے ہے۔گورنمنٹ کالج، اٹک سے بی اے اور پنجاب یونی ورسٹی لا کالج، لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ آپ کے دادا سردار محمد اکبر خان کا شمار اپنے عہد کے ممتاز افراد میں ہوتا ہے۔ان کے مولانا ابوالکلام، مولانا مودودی اور دوسرے علماے وقت کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ ظہیر احمد خان ظہیر نے ۱۹۶۲ء میں اپنے دادا کے نام مولانا ابوالکلام کے خطوط کو ’’نوادرِ ابوالکلام‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ظہیر خان کا اپنا کلام ہنوز    محرمیِ اشاعت کو ترستا ہے۔

۱۵۔  منیر احمد شیخ نے سہواً عظیم بھٹی کے بجائے عزیز بھٹی لکھ دیا ہے۔ اٹک کے معروف شاعر، ادیب اور محقق۔محمد عظیم بھٹی یکم دسمبر ۱۹۳۶ء کو شینھ باغ ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج،اٹک سے گرایجویشن اور جامعۂ پشاور سے ایم اے (اُردو) کی تکمیل کے بعدقومی ادارہ براے تحقیق تاریخ وثقافت، اسلام آباد میں ملازم ہو گئے۔اسی ادارے سے بہ حیثیت سینئیر اُردو افسر سبک دوش ہوئے۔۲۶؍ ستمبر ۱۹۹۹ء کو وفات پائی۔

۱۶۔   نذر صابری نے محفلِ شعر وادب، اٹک کے زیرِ اہتمام منیر احمد شیخ کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ منیر احمد شیخ بہ وجوہ اس تقریب میں شریک نہ ہو سکے۔اُن کی وفات[۱۹۹۰ء] کے بعد محفلِ شعر وادب کے زیرِ اہتمام اُن کا تعزیتی ریفرنس ۲؍جون ۱۹۹۰ء کو منعقد ہوا۔ بعد ازاں ۶؍مارچ ۱۹۹۱ء کو اُن کی یاد میں ایک تقریب بھی منعقد کی گئی۔

۱۷۔  گورنمنٹ کالج کے استاد اور پرنسپل محمد افضل کی ریٹائرمنٹ پر محفلِ شعر وادب، اٹک کے زیرِ اہتمام ایک تقریب منعقد کی گئی۔پروفیسر محمد افضل چوںکہ منیر احمد شیخ کے پرانے دوستوں میں سے تھے، اس لیے نذر صابری انھیں اس اجلاس میں بُلانا چاہتے تھے، انھوں نے وعدہ بھی کر لیا تھا مگر شریکِ اجلاس نہ ہو سکے اور اسی سال ۲۸؍ مئی کو وہ راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔

 

مآخِذ

۱۔     سلیچ، ڈاکٹر محمد منیر احمد، ’’  ُبجھتے چلے جاتے ہیں چراغ‘‘، لاہور: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، ۲۰۱۸ء۔

۲۔    صابری، نذر(مرتب)، ’’غایۃ الامکان فی معرفتہ الزمان والمکان‘‘، اٹک: مجلسِ نوادراتِ علمیہ،۱۲؍ ربیع الاوّل ۱۴۰۱ھ۔

۳۔    _____، ’’روداد محفلِ شعر وادب‘‘ (دفتر ششم)،غیر مطبوعہ:مملوکہ ارشد محمود ناشاد۔

۴۔    _____، ’’اداس لمحوں کی یادیں‘‘،اٹک: محفلِ شعر وادب،فروری ۲۰۱۳ء۔

۵۔    ناشاد، ارشد محمود، ’’اٹک کے اہلِ قلم‘‘، اٹک: پنجابی ادبی سنگت، ۲۰۰۰ء۔

Statistics

Author(s):

Associate Professor, Department of Urdu, Allama Iqbal Open University, Islamabad, Pakistan.

Pakistan

  • arshad_nashad@yahoo.com
  • 0092 300 5391140

Details:

Type: Article
Volume: 95
Issue: 2
Language: Urdu
Id: 5e8b437114ed9
Pages 9 - 19
Discipline: Arts & Humanities
Published December 21, 2019

Statistics

  • 769
  • 209
  • 230

Copyrights

Urdu retain copyright and grant the journal right of first publication with the work simultaneously, allows others to share the work with an acknowledgement of the work's authorship and initial publication in this journal.
Creative Commons License
This work is licensed under a Creative Commons Attribution-NonCommercial 4.0 International License.